دارالامان سے تمام مرد ملازمین کو ہٹانے کا حکم آگیا
لاہور( ویب ڈیسک) لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب حکومت کو تمام دارالامان سے مرد ملازمین کو ہٹانے، تمام دارالامان کے داخلی راستے اور احاطے میں سی سی ٹی وی کیمرے لگانے کا حکم دے دیا۔لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان اور دیگر کی دارالامان میں بچیوں کے لئے حفاظتی اقدامات نہ ہونے، خواتین کے حقوق سے متعلق درخواست پر دلائل مکمل ہونے کے بعد تحریری فیصلہ جاری کیا ۔
فاضل عدالت نے کہا کہ حکومت تمام شیلٹر ہومز اور حفاظتی سینٹر کو ریگولیٹ کرنے کیلئے 6ماہ میں خواتین تحفظ ایکٹ 2016ء کے تحت رولز بنائے، 6 ماہ میں بچوں کے تحفظ کے اداروں کو چلانے کیلئے بھی رولز بنائے جائیں، ہر ضلع میں خواتین کے تحفظ کی کمیٹیاں بھی بنائی جائیں، ہر ضلع کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کم از کم 2 ماہ میں ایک مرتبہ دارالامان کا جائزہ لیں۔
عدالت نے مزید کہا کہ دارالامان میں رہنے والی خواتین کی معاشی بحالی کیلئے انہیں پیشہ ورانہ تربیت فراہم کی جائے۔ عدالت نے قرار دیا کہ یہ بات غیر واضح ہے کہ کس قانون کے تحت وفاقی وزارت ویمن ڈویلپمنٹ نے کرائسز سنٹر قائم کیے، ویمن پروٹیکشن ایکٹ 2016ء کے تحت پنجاب کے تمام اضلاع میں شیلٹر ہومز اور حفاظتی مرکز قائم ہونا تھے، مذکورہ ایکٹ کے تحت ملتان کے علاوہ کسی دوسرے ضلع میں شیلٹر ہومز اور حفاظتی مرکز قائم نہیں ہوئے، باقی اضلاع میں موجود دارالامان اور کرائسز سنٹرز کو حفاظتی مرکز قرار دیا گیا ہے ۔
عدالت نے حکومت پنجاب کو شیلٹر ہومز کی مانیٹرنگ کیلئے ڈیٹا بیس اور سافٹ وئیر بنانے کا بھی حکم دیا۔