اسلام آباد میں صحت عامہ کا بحران اور پالیسی ناکامی

پاکستان میں صحتِ عامہ کے سنگین بحران اور حکومتی پالیسیوں کی خرابی پر پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) نے شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ پیما کا کہنا ہے کہ عالمی ادارے The Global Fund کی حالیہ آڈٹ رپورٹ اور میڈیا رپورٹس میں جس صورت حال کی نشاندہی کی گئی ہے، وہ ملک میں صحت کے شعبے کی بگڑتی حالت اور پالیسی ساز اداروں کی ناکامی کو واضح کرتی ہے۔
پیما کے مرکزی صدر پروفیسر عاطف حفیظ صدیقی نے کہا کہ رپورٹ کے مطابق ایچ آئی وی سے اموات میں 400 فیصد اضافہ ہو گیا ہے، ادویات کے خلاف مزاحمت رکھنے والی ٹی بی کے ستر فیصد کیسز تشخیص ہی نہیں ہو پاتے اور ملیریا کے کیسز میں بھی تیزی سے اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ اس افسوسناک صورت حال کی بنیادی وجہ صحت کے اداروں میں نااہل اور غیر متعلقہ افراد کی تقرریاں ہیں۔
پروفیسر عاطف حفیظ صدیقی نے بطور خاص ٹی بی کنٹرول پروگرام میں غیر متعلقہ نان میڈیکل ڈپٹی کوآرڈینیٹر کی تعیناتی کو مثال بنا کر پیش کیا، جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ نہ صرف عدالت عظمیٰ کے احکامات کی خلاف ورزی ہے بلکہ میرٹ اور سرکاری اشتہار کی شرائط کے بھی منافی ہے۔
پیما کے صدر نے مزید کہا کہ ماضی اور حال کی حکومتوں میں پالیسی سازی سے صحت کے پیشہ ور افراد کو دانستہ دور رکھا گیا اور اہم فیصلے غیر متعلقہ افراد کے مشوروں پر کیے گئے۔ خصوصاً پنجاب اور خیبرپختونخوا میں مبینہ اصلاحات کے تحت ڈاکٹرز اور ہیلتھ ورکرز کو دباؤ، ابہام اور مایوسی کا سامنا ہے جس سے اداروں کی ساکھ بھی متاثر ہو رہی ہے اور عوامی جانوں کو خطرے میں ڈالا جا رہا ہے۔
اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ عالمی فنڈ کی رپورٹ کی روشنی میں فوری اور شفاف انکوائری کی جائے۔ تنظیم نے زور دیا کہ تمام اہم عہدوں پر صرف اہل، تجربہ کار اور متعلقہ ماہرین کی تقرری یقینی بنائی جائے، قومی صحت پروگرامز کو ہر قسم کے سیاسی اثر و رسوخ سے پاک رکھا جائے اور ڈاکٹرز و ماہرین کو پالیسی سازی میں شامل کر کے عوامی مفاد میں مؤثر اور دیرپا فیصلے کیے جائیں۔