پاکستان میں بچوں پر سیسے کا زہر، فوری عملی اقدام کی ضرورت

پاکستان میں لاکھوں بچوں کو سیسے کی زہریلی آلودگی کا سامنا، فوری اقدامات کی ضرورت

اسلام آباد: پاکستان میں بچوں کو سیسے کی زہریلی آلودگی سے بچانے کے لیے فوری اور مشترکہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ وزارت قومی صحت خدمات، ریگولیشنز اور کوآرڈی نیشن کی جانب سے یونیسف اور ہیلتھ سروسز اکیڈمی کے تعاون سے کی جانے والی حالیہ تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ ملک میں تقریباً 4 کروڑ بچوں کے خون میں سیسے کی مقدار 5 مائیکرو گرام فی ڈی سی لیٹر یا اس سے زیادہ ہے، جو عالمی ادارہ صحت اور امریکی ادارہ برائے امراض کی روک تھام کے طے کردہ محفوظ معیار سے تجاوز کر چکی ہے۔

ادارہ برائے صحت پیمائش و جائزہ (IHME) کے مطابق، صرف 2017 میں دنیا بھر میں سیسے کی آلودگی سے ایک لاکھ 60 ہزار اموات اور لاکھوں معذوریاں ہوئیں، جب کہ پاکستان میں سب سے زیادہ متاثرہ طبقات میں پانچ سال سے کم عمر بچے، حاملہ خواتین اور صنعتی کارکن شامل ہیں۔

ماہرین کے مطابق پاکستان میں بچوں میں سیسے کی آلودگی کے کئی ذرائع ہیں جن میں سیسہ ملا پینٹ اور بیٹریاں، سیسے والی پائپوں سے آنے والا پانی، آلودہ مٹی اور گھریلو گرد و غبار، کھلونے، کاسمیٹکس (جیسے سرمہ)، مسالے (جیسے ہلدی) اور روایتی ادویات، نیز غیر رسمی صنعتی فضلہ شامل ہیں۔

ماہرین صحت نے خبردار کیا ہے کہ خون میں سیسے کی زیادہ مقدار سے بچوں میں آئرن کی کمی پر مبنی خون کی کمی، ذہانت میں کمی اور نشوونما کی رکاوٹیں، اور اعصابی نظام کو نقصان جیسے سنگین مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔

"پاکستان میں بچپن میں سیسے کی زہریلی آلودگی کا خاتمہ: پالیسی سازی کے لیے شواہد” کے منصوبے کے تحت پنجاب، خیبر پختونخواہ، سندھ، بلوچستان اور اسلام آباد کے زیادہ خطرے والے علاقوں میں 2 ہزار 135 بچوں کے خون کے نمونے حاصل کیے گئے۔ تحقیق کے نتائج فوری اور مربوط اقدامات کا تقاضا کرتے ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ اس سنگین مسئلے سے نمٹنے کے لیے وزارت قومی صحت و موسمیاتی تبدیلی، صوبائی محکمہ صحت، ماحولیاتی تحفظ کے ادارے، وفاقی و صوبائی فوڈ اتھارٹیز، صنعتی شعبہ اور تعلیمی اداروں کا مل جل کر کام کرنا ناگزیر ہے تاکہ سیسے کی آلودگی کو جڑ سے ختم کیا جا سکے اور بچوں کی صحت محفوظ بنائی جا سکے۔

ماہرین صحت نے انتباہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ "اب عمل کرنے کا وقت ہے”، کیونکہ سیسے کی زہریلی آلودگی ملک کے لاکھوں بچوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔

About The Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے